اشاعتیں

اشعار لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

وصف رخ ان کا کیا کرتے ہیں

 وصفِ رخ ان کا کیا کرتے ہیں شرح و الشمسُ و ضحٰے کرتے ہیں  ان کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں  ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھو مصطفےٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز کیا کرتے ہیں تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے جھپ گئے تیری ضیا میں تارے انبیا اور بھی ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں  اے بلا بے خردی کفار رکھتے ہیں ایسے حق میں انکار  کہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں  اپنے مولٰی کی ہے شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری جوش پر آتی ہے جب غم خواری تِشنے سیراب ہوا کرتے ہیں  جب صبا آتی ہے طیبہ سے ادھر کِھلکِھلا پڑتی ہے کلیاں یکسر پھول جامہ سے نکل کر باہر رخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں  لب پہ آجاتا ہے جب نامِ جناب منھ میں گھل جاتا ہے شہد نایاب وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چوم لیا کرتے ...

میں جھوٹ اگر بولوں سولی پہ چڑھا دینا

 میں جھوٹ اگر بولوں سولی پہ چڑھا دینا  فطرت ہے حسینوں کی دل لے کے دغا دینا پروانے کو شمع سے امید وفا کیا ہو ہے کام فقط ان کا جل جل کے جلا دینا گر میری محبت میں اک ذرہ کمی پاؤ حق دیتا ہوں میں تم کو جو چاہو سزا دینا احباب جنازہ مرا جب لے کر نکلیں گے  تم آکے جنازہ پہ دو پھول چڑھا دینا جس خط سے ہو رسوائی انجام محبت میں  مت رکھنا کتابوں میں اس خط کو جلا دینا جل جل کے اکیلے میں خود کو نہ جلا لینا گر میری ضرورت ہو کھڑکی سے بلا لینا جب چاندنی راتوں میں تم چھت پہ ملو ہم سے پیشانی سے زلفوں کو اس وقت ہٹا دینا اک بار چلے آؤ تنہائی کے موسم میں  تم میری وفاؤں کا کچھ بھی تو صلہ دینا

مناقب

استغاثہ در بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ و سلم  عرس اختر رضا آ گیا شان سے  منقبت در شان خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کروں دید میں بھی تری میرے مرشد منقبت در شان صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم منقبت سید سالار مسعود غازی (بہرائچ شریف یوپی)

عدالت تری ہے قلم بھی ترا ہے

 عدالت تری ہے قلم بھی ترا ہے شہادت مری ہے اشارہ ترا ہے مرا دل کہاں ہے نظر تو کیا تھا  عقیدت نہیں ہے جلا کیوں دیا ہے جلایا تو ہے دل دھواں پھر کہاں ہے  زباں میں تری وہ صداقت نہیں ہے  مرے عشق کا یہ تماشا کیا ہے تو نے اس طرح بے مروت کیا ہے  تجھے دل دیا تھا امانت کی خاطر تو نے دل دکھا کر خیانت کیا ہے تری بھی قدَر تھی محبت سے پہلے  محبت نے ہی تجھ کو رسوا کیا ہے ثمر کیا ہوا تو پریشان کیوں ہے کروڑوں میں صرف ایک رسوا ہوا ہے محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی  غزلیں

دل مرا کہہ رہا ہے میں ترا پیار ہوں

 دل مرا کہہ رہا ہے میں ترا پیار ہوں میں ترا عشق ہوں میں ترا پیار ہوں  تو سمجھتا نہیں اس مری بات کو میں ترا عشق ہوں میں ترا پیار ہوں کس طرح سمجھاؤں میں ترا پیار ہوں کہہ رہا ہے زماں میں ترا پیار ہوں جل رہا ہے جگر مضطرب روح بھی  کہہ رہا ہے دل مرا میں ترا پیار ہوں  چشم نم لے کے آیا ترے پاس میں  تو سمجھتا نہیں میں ترا پیار ہوں  جب نظر سے نظر مل گئی ایک دن کیوں یہ کہتا نہیں میں ترا پیار ہوں  عشق محبوب کی اب کوئی حد نہیں  کہہ دیا ایک دن میں ترا پیار ہوں اے ثمر اب ٹھہر جا بہت ہو گیا  کہہ دیا اس نے جب میں ترا پیار ہوں محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی 

ترقی جو ہوتی ہے رتبوں میں میرے

اسے دیکھا جو میں نے تو نظر واپس نہیں آئی

 اسے دیکھا جو میں نے تو نظر واپس نہیں آئی اشارہ کر رہا تھا میں مگر واپس نہیں آئی  نگاہوں سے تو لگتا تھا مجھی کو ڈھونڈتی ہے وہ وہ آئی ہی نہیں پھر بھی نظر واپس نہیں آئی  کہا تھا میں گلے لگجا بڑی تسکین ملتی ہے  وہ جاتی ہی رہی اب تک مگر واپس نہیں آئی مجھے محسوس ہوتا ہے کہیں وہ پاس ہے میرے ترے جب پاس ہے تو کیوں وہ پھر واپس نہیں آئی  اگر دل پر وہ سر رکھ دے اسے محسوس ہوگا یہ وظیفہ ہے ترا دل کا مگر واپس نہیں آئی  بڑے ہی فخر سے کہتا تھا وہ واپس آ رہی ہے اب کہاں تک اب وہ پہنچی ہے ثمر واپس نہیں آئی 

انعام خان ثمر قادری کی شاعر

جس غزل کو پڑھنا  ہے نیلے لائن پر کلک کریں 

استغاثہ در بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ و سلم

 نظم 18 کرم کی التجا ہے اب کرم ہو یا رسول اللہ مجھے بھی اپنے روضے پر بلا لو یا رسول اللہ  گناہوں کی وجہ سے میں بڑا بے چین رہتا ہوں مرے دل کو گناہوں سے سنبھالو یا رسول اللہ  ہمیشہ میں گناہوں کی طرف کھچتا ہی جاتا ہوں مجھے اب اپنی جانب ہی بلا لو یا رسول اللہ  دعائیں در خو میری ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے جو ہر دم میں گناہوں میں لگا ہوں یا رسول اللہ  کہیں میں دور رہ کر ہی نہ دنیا سے چلا جاؤں اجازت اب مدینے کی عطا ہو یا رسول اللہ  یہ دنیا بے وفا ہے اب یہاں جینا ہوا دوبھر  ثمر کو اب مدینے میں بلا لو یا رسول اللہ  محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی 

منبت در شان خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ

6 نظم تمنا ہے دل میں مرے میرے خواجہ میں دیکھو ترا بھی نگر میرے خواجہ    مگر کیا کروں میں وسائل نہیں ہیں  عطا کر وسائل مجھے میرے خواجہ وسائل ملنگے اجازت جو ہوگی عطا کر اجازت مجھے میرے خواجہ  ترا در غریبوں کا تو  ہے ٹھکانا  مجھے اپنے در پے بلا میرے خواجہ  وسیلے سے تیرے کیا جب دعا میں  اجابت کو پہنچی دعا میرے خواجہ  ثمر کے قلم کو عطا کر وہ قوت  یہ لکھتا رہے بس تجھے میرے خواجہ  محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی  

کروں دید میں بھی تری میرے مرشد

 11 نظم کروں دید میں بھی تری میرے مرشد مرا ہے وظیفہ یہی میرے مرشد چمک اب اٹھے تو مقدر مرا بھی زیارت کروں میں تری میرے مرشد  ترا ہے کرم عام سب پر برابر مجھے بھی عطا ہے ملی میرے مرشد رہے فیض جاری ترا ہم پہ ہر دم بصدق ولادت تری میرے مرشد   تری ہی عطا ہے اسے جو ملا ہے ثمر پر عطا ہے تری میرے مرشد  محمد انعام خان ثمر قادری  بموقع یوم ولادت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری رحمۃ اللہ علیہ 2/2/2023

منقبت در شان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین

نظم  16 نبی کے ہر صحابی سے خدا راضی ہے تم سن لو  اگر ان سے جلو گے نار میں جاؤ گے تم سن لو نبی نے کہہ دیا ہے جب ہدایت کے ستارے ہیں  صحابی سے جدا ہو کر کہاں جاؤ گے تم سن لو  برا کہنا نہیں ہے اب کسی میرے صحابی کو نبی نے لا تسُبُّوا کہہ دیا ہے اس کو تم سن لو یہ علما نے کہا ہے کہ وہ کتا ہے جہنم کا ہے جس کے دل میں بھی بغض صحابی اس کو تم سن لو جہاں میں اب کسی کا بھی ثمر تجھ کو نہیں ہے ڈر ترے حامی صحابی ہیں جہاں والوں یہ تم سن لو (محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی )

غزل بوقت رخصت جامعہ

نہ جانے کیوں مرا دل اس طرح بے حس و حرکت ہے  مجھے معلوم ہوتا ہے یہی تو وقت رخصت ہے  ترے نزدیک جو گزرا ہے اک اک پل مرے ساتھی وہ دل سے ہی نکل جائے اسے کیا یہ اجازت ہے نہ دنیا میں کبھی تو حشر میں ہم مل ہی جائیں گے ملیں گے ہم قیامت میں خدا ہی کی تو رحمت ہے کہا ہے خوب لوگوں نے کہ رہبر بھی ضروری ہے  نہ ہو گر نیک ساتھی تو زندگی با لکل ملامت ہے ثمر جو بولتا ہے بے جھجھک لوگوں کے بارے میں  اسے جو بھی ملی ہممت یہ سب تیری بدولت ہے محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی 

ماں

خوشی مجھ کو دنیا کی ساری دیا ہے مرے واسطے ماں نہیں کیا کیا ہے میں فائز ہوا ہوں جو اس مرتبے پر  یہ ماں باپ کی شفقتوں کا صلا ہے یہ دولت یہ شہرت ملی جس کے صدقے نہیں ماں کی عزت تو دنیا میں کیا ہے کہا میں کہ گھر کے لئے ہوں میں نکلا میں جب تک نہ پہنچا دعا ہی کیا ہے میں ڈرتا نہیں ہوں زمانے سے اب تو مری ماں نے مجھ کو بہادر کہا ہے وہ ماں کی دعائیں رہی ساتھ ہر دم  مصیبت میں مجھ کو سہارا دیا ہے بلندی پہ اتنی کھڑا ہوں یہاں پر   یہ والد کی شفقت اور ماں کی دعا ہے   وہ والد کی شفقت بھری دھوپ میں بھی   سروں پر ہمارے تو سایہ کیا ہے   اگر ماں کے قدموں میں جنت ہے تیری بڑا مرتبہ باپ کا بھی ہوا  ہے  خدا بخشے مجھ کو اور مادر پدر کو خدا سے یہ میں نے دعا بھی کیا ہے   رہے مرتے دم تک مری ماں بھی راضی  ہے ماں کی رضا تو خدا کی رضا ہے مرا بھائی مجھ کو بڑا چا ہتا ہے جو میں نے کہا ہے وہ مجھ کو دیا ہے وہ ماں کی محبت وہ ماں کی جو شفقت وہی ہے صفت بہنو میں بھی دکھا ہے بیاں ہو ثمر ماں کی عظمت بھی کیسے خدا نے تو قدموں میں جنت کیا ہے محمد انعام خان ثمر قادری (بہرائچی) 

منقبت سید سالار مسعود غازی (بہرائچ شریف یوپی)

 بارہویں نظم   یہاں پر ہے حکومت سیدِ مسعود غازی کی ابھی تک ہے قیادت سیدِ مسعود غازی کی  معینُ الدّین اجمیری بنے ہیں ہند کے راجہ رہی ہے بادشاہت سیدِ مسعود غازی کی  خدا نے ہے بہت سے اولیاں کو یہ شرَف بخشا ہوئی حاصل قیادت سیدِ مسعود غازی کی  ولادت سے قبَل ان کی بشارت دی گئی سب کو خضَر نے دی بشارت سیدِ مسعود غازی کی  ثمر تو ناز کر خود پر بڑا ہے مرتبہ تیرا  تجھے حاصل ہے نسبت سیدِ مسعود غازی کی محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی  07/02/2023

نظم

 پہلی نظم رہی وقعت کسی کی اب نہیں میری نگاہوں میں  مدینے کی بہاروں کو بسایا ہوں نگاہوں میں  یہی ہے آرزوِ دل مروں میں بھی مدینے میں  مدینے کی بہاروں کا تصور ہے نگاہوں میں  بڑی مشکل سے جیتا ہوں یہاں پر یا رسولَ اللہ  نظر مجھ پر کرم کی ہو دکھوں میں بھی مدینے میں   کرم کی ہو نظر مجھ پر خدا را یا رسول اللہ  مدینے کی بہاروں کو بسالوں میں نگاہوں میں  ثمر کو اب مدینے میں بلا لیجے رسولُ اللہ  سوا تیرے نہیں ہے اب کوئی اس کے نگاہوں میں  محمد انعام خان ثمر قادری بہرائچی 

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام

 *🌹تضمینِ سلامِ حضوراعلیٰحضرت🌹* مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام 〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️  مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام درد دل نام لینے سے ہوتا ہے کم اس لئے نام آقا لیتے ہیں ہم جھوم کر لکھ رہا ہے رضا کا قلم شہر یار ارم تاجدار حرم  نو بہار شفاعت پہ لاکھوں سلام جلوہ گر ہو گیا ہے حلیمہ کا چاند  اب تو جچتا نہیں یہ دنیا کا چاند فیض پاتا یہی ہے زلیخا کا چاند جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام وہ حسن اور حسین کے نانا رسول کتنے پاکیزہ ان کے قدموں کے دھول مرحبا مرحبا وہ ہے آل رسول کتنے مہکے ہوئے ہیں مدینے کے پھول  کربلا تیری قسمت پہ لاکھوں سلام غوث اعظم نے مُردے کو زندہ کیا ایک عجوبہ زمانے کو دکھلا دیا آج بھی لوگ کہتے ہیں صد مرحبا غوث اعظم امام التقیٰ والنقیٰ جلوئہ شان قدرت پہ لاکھوں سلام ہم نے سمجھا نہ تھا آپ کا مرتبہ اک ولی نے ہم کو یہ سمجھا دیا سرمائہ عشق آنکھوں میں پہنا دیا ڈال دی قلب میں عظمت مصطفیٰ سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام نفسی نفسی کا ہوگا قیامت میں شور جب کسی کا کسی پر چلےگا نہ زور ہاتھ میں ہوگی ان کی شف...

تپش سورج سے لو اور آسماں سے بجلیاں چھینو

 تپش سورج سے لو اور آسماں سے بجلیاں چھینو  کفر کے آشیہ پہ بجلی برسانے کا وقت آیا  بھڑک اٹھے ہیں پھر سے آشے نمرود کے شعلے  کہ انہیں پھر جذبئے ابراہیم دکھلانے کا وقت آیا  اٹھو صلاح الدین ایوبی کے فرزندوں  اس غازی کے افسانے کو دہرانے کا وقت آیا  جوانان وطن اٹھو کفن بر دوش ہو جاؤ  جہادے فی سبیل اللہ کر جانے کا وقت آیا  نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی آبرو باقی رہے گی تم بھی باقی ہو  وگرنہ پھر غلامی میں الجھ جانے کا وقت آیا  سنو یہ روضۂ اطہر سے کیا آواز آتی ہے  مسلمانوں میری حرمت پہ کٹ جانے کا وقت آیا 

قلب کو اس کی رویت کی ہے آرزو

 اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ قلب کو اس کی رویت کی ہے آرزو جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو بلکہ خود نفس میں ہے وہ سُبْحٰنَهُ عرش پر ہے مگر عرش کو جستجو                اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ عرش و فرش و زَمان و جہت اے خدا جس طرف دیکھتا ہوں ہے جلوہ ترا ذَرّے ذَرّے کی آنکھوں میں تو ہی ضیا قطرے قطرے کی تو ہی تو ہے آبرو اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ تو کسی جا نہیں اور ہر جا ہے تو تو منزہ مکاں سے مبرہ ز سو علم و قدرت سے ہر جاہے تو کو بکو تیرے جلوے ہیں ہر ہر جگہ اے عفو اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ ہر نہالِ چمن ذِکر سے ہے نہال ذِکر حق ہی اسے کرتا ہے مَالا مَال ذِکر سے چوک کر ہوتا ہے وہ نڈھال ذِکر ہی تیرا ہے اس کی وَجہِ نمو اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ وہ بھی تسبیح سے رکھتا ہے اِشتغال جو نہیں رکھتا منہ اور لسانِ مَقال پھر بھی گویائے تسبیح ہے اس کا حال اس کی حالی زباں کہتی ہے تو ہی تو اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ جو ہے غافل ترے ذِکرسے ذُوالجلال اس کی غفلت ہے اس پر وَبال و نکال قعرِ غفلت سے ہم کو خدایا نکالق ہم ہوں ذاکر ترے اور مَذکور تو اللهُ اللهُ اللهُ اللهُ ہے زبانِ جہاں ح...

شاہ جلوہ نما ہو گیا

 شاہ جلوہ نما ہو گیار نگ عالم کا بالکل نیا ہو گیا منتخب آپ کی ذات والا ہوئی نام پاک آپ کا مصطفےٰ ہو گیا مل گیا تجھ سے اللہ کا راستہ  حق سے ملنے کا تو واسطہ ہو گیا لامکاں میں بلایا خدا نے تجھے عرش و کرسی سے بھی تو ورا ہو گیا ایسی نافذ تمہاری حکومت ہوئی تم نے جس وقت جو کچھ کہا ہو گیا مہ دوپارہ ہوا سورج الٹا پھرا جب اشارا تمہارا ذرا ہو گیا سیر کر جائیں آ کر جناب مسیح شہر طیبہ بھی دور الشفا ہو گیا ناز کر اے جمیل اپنی قسمت پہ تو خاک نعلین احمد رضا ہو گیا طالب دعا محمد انعام خان قادری