ترقی جو ہوتی ہے رتبوں میں میرے
ترقی جو ہوتی ہے رتبوں میں میرے
یہ برکت تری ہے خیالوں میں میرے
اگر کوئی دیکھے نگاہوں میں میرے
تری ہی ہے صورت نگاہوں میں میرے
یہ دنیا میں رکھ دوں گا قدموں میں اس کے
کبھی وہ اگر آئے سپنوں میں میرے
ملی ہے نظر سے نظر میری جب سے
وہی ہے ابھی تک نگاہوں میں میرے
نگاہوں نے اس کا لیا نقش ایسا
اسی کی جھلک ہے نظاروں میں میرے
کبھی روشنی کم لگی ہی نہیں ہے
تبسم ہے اس کا نگاہوں میں میرے
تصور اندھیروں میں جب بھی ہوا ہے
چمک ہے اٹھی اک نگاہوں میں میرے
بڑا ہے سکوں مجھ کو اس وقت سے ہی
دیا ہاتھ وہ جب سے ہاتھوں میں میرے
کتابیں تو چھٹتی نہیں اب ہیں مجھ سے
ہے تصویر تیری کتابوں میں میرے
کئی دن سے دل میں یہ خواہش جگی تھی
کہ بھر لوں اسی کو میں باہوں میں میرے
ثمر اب تری شاعری ہو گی شیریں
کہا اس نے آ جا تو باہوں میں میرے
محمد انعام خان ثمر قادری (بہرائچی)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں