میں جھوٹ اگر بولوں سولی پہ چڑھا دینا

 میں جھوٹ اگر بولوں سولی پہ چڑھا دینا 

فطرت ہے حسینوں کی دل لے کے دغا دینا


پروانے کو شمع سے امید وفا کیا ہو

ہے کام فقط ان کا جل جل کے جلا دینا


گر میری محبت میں اک ذرہ کمی پاؤ

حق دیتا ہوں میں تم کو جو چاہو سزا دینا


احباب جنازہ مرا جب لے کر نکلیں گے 

تم آکے جنازہ پہ دو پھول چڑھا دینا


جس خط سے ہو رسوائی انجام محبت میں 

مت رکھنا کتابوں میں اس خط کو جلا دینا


جل جل کے اکیلے میں خود کو نہ جلا لینا

گر میری ضرورت ہو کھڑکی سے بلا لینا


جب چاندنی راتوں میں تم چھت پہ ملو ہم سے

پیشانی سے زلفوں کو اس وقت ہٹا دینا


اک بار چلے آؤ تنہائی کے موسم میں 

تم میری وفاؤں کا کچھ بھی تو صلہ دینا

تبصرے