قربانی کے مسائل
قربانی کے مسائل
اللہ تعالی نے لوگوں کو اپنے رسولوں کے ذریعے ہدایت کا راستہ دکھایا اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بے شمار رسولوں کو مبعوث فرمایا ہر رسول کو اس کی شریعت میں کوئی نہ کوئی ایسا حکم عطا فرمایا جو صرف اسی امت کے لیے خاص ہو اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بے شمار خصوصیات عطا فرمایا انہیں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت قربانی کرنا ہے یہ فعل صرف امت محمدیہ کے لیے خاص فرمایا حدیث شریف میں قربانی کرنے والوں کے لیے بشارت وارد ہوئی ہے جیسا کہ حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ آتش جہنم سے بچ گیا (المعجم الکبیر٢٧٣٦ ج٣ ص ٨٤) اور فرمایا جس نے وسعت کے بعد قربانی نہ کی وہ ہمارے عید گاہ کے قریب میں نہ آئے
اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یوم نحر یعنی دسویں ذیحجہ میں ابن ادم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے یعنی قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ بال اور کھروں کے ساتھ ائے گا اور قربانی کا خون تو زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام مقبول میں پہنچ جاتا ہے لہذا اس کو خوش دلی سے کرو
قربانی کی تعریف: مخصوص جانور کو مخصوص دن میں تقرب کی نیت سے اللہ کے لیے ذبح کرنا قربانی ہے
قربانی کس پر واجب ہے قربانی واجب ہونے کے شرائط یہ ہیں 1مسلمان ہونا 2مقیم ہونا لہذا مسافر پر قربانی واجب نہیں 3 مالک نصاب ہونا مالک نصاب ہونے سے مراد اتنا مال ہونا ہے جتنا مال ہونے سے صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے یعنی حاجت اصلیہ کے علاوہ 200 درہم ساڑھے 52 تولہ چاندی یا 20 دینار یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہونا
جدید وزن کے اعتبار سے سونے چاندی کا نصاب ایک تولہ تقریبا 11 گرام 665 ملی گرام کے برابر ہوتا ہے اور سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ یعنی تقریبا س 27 گرام 46 ملی گرام ہوتا ہے ساڑھے 52 تولہ چاندی تقریبا با 612 گرام 36 ملی گرام ہوتا ہے تو جس کے پاس اتنی مقدار میں سونا چاندی یا ان کی قیمت ہو تو وہ مالک نصاب ہے اور اس پر قربانی واجب ہے دارالافتہ اہل سنت دعوت اسلامی فتوی نمبر 854 ویب 4 حویت یعنی ازاد ہونا جو ازاد نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں کہ یہ غلام کے پاس مال ہی نہیں لہذا عبادت مالیہ پر عبادت مالیہ اس پر واجب نہیں مرد ہونا اس کے لیے شرط نہیں عورتوں پر واجب ہوتی ہے جس طرح مرد پر واجب ہوتی ہے
حاجت اصلیہ: ایک مکان جاڑے کے لیے اور ایک گرمی کے لیے یہ حاجت میں داخل ہے ان کے علاوہ اس کے پاس تیسرا مکان ہو جو حاجت سے زائد ہے اگر یہ 200 درہم کے برابر ہے تو قربانی واجب ہے اسی طرح گرمی جاڑے کی بچھونے حاجت میں داخل ہیں اور تیسرا بچھونا جو حاجت سے زائد ہے اس کا اعتبار ہوگا. گھر میں پہننے کے کپڑے اور کام کاج کے وقت پہننے کے کپڑے اور جمعہ وعیدین اور دوسرے موقع پر پہن کر جانے کے کپڑے یہ سب حاجت میں داخل ہیں
اقسام جانور: قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں اونٹ گائے بکری ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں نر اور مادہ خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہے ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہے 339
جانور کی عمر: اونٹ پانچ سال کا گائے دو سال کی بکری ایک سال کی اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو تو جائز ہے بلکہ افضل ہے ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ (یعنی چھ مہینے) کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کی دود سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے 340
قربانی کے جانور: وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہو سکتی قربانی کے جانور میں اگر کوئی عیب ہے تو قربانی نہیں ہوگی(عیب جانور کے اندر ایسی چیز کا پایا جانا ہے جس کے ہوتے ہوئے جانور کی قیمت میں نقص آ جائے یا بالکل کم ہو جائے) اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہے تو قربانی ہوگی بھی نہیں جس کے پیدائشی سینگ نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیے اور مینگ( یعنی جڑ تک) ٹوٹ گیا تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہوں ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے (خصیے نکال لینے سے جانور میں عیب نہیں اتا بلکہ اس میں اور زیادہ حسن پیدا ہو جاتا ہے اور حضور علیہ السلام نے خصی دنبہ کی قربانی فرمائی ) بہارے شریعت حصہ ١٥ ص 340
بھینگے جانور کی قربانی جائز ہے اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں اور کانا جس کا کان کانا پن ظاہر ہے اس کی بھی قربانی ناجائز ہے اتنا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جا سکے اور اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان یا دم یا چکی (دنبے کی گول چپٹی دم) کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے تہائی سے کم ہے تو جائز ہے جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو ان کی ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں ان کی جائز ہے جس کے دانت نہ ہو( یعنی کھانے پر قادر نہ ہو) تو اس کی ناجائز اور اگر کھا سکتا ہو تو جائز ہے یا جس کے تھن سوکھے ہوں چار میں سے دو اگر ہیں تو قربانی نہیں ہوگی اور دو میں سے ایک اگر سوکھا ہے تو بھی قربانی نہیں ہوگی
جانور میں شرکت : بڑے جانور جیسے گائے بیل بھینس اونٹ وغیرہ میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں یعنی ان میں سات لوگوں کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے اور بکری بکرا بھیڑ وغیرہ کو صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے ان کے علاوہ اگر کوئی شخص مرغی وغیرہ کو قربانی کی نیت سے ذبح کرے تو قربانی ادا نہ ہوگی قربانی کے سب شرکا کی نیت تَقَرُّبْ (یعنی اللہ تعالی کا حق ادا کرنا مقصود) ہو لہذا ان میں عقیقہ کرنے والا بھی شامل ہو سکتا ہے کیونکہ عقیقہ بھی تَقَرُّب کی ایک صورت ہے اگر ایک جانور میں سات لوگ شامل ہیں تو ضروری ہے کہ گوشت تول کر تقسیم کیا جائے اٹکل سے نہ ہو اگر کسی کے پاس زیادہ چلا گیا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی اور ایک دوسرے کو معاف کر دے نے سے بھی معاف نہ ہوگا کیونکہ یہ حق شرع ہے اور اسی طرح اگر ان شرکا میں سے کسی کی نیت صرف گوشت حاصل کرنا ہے تو بھی کسی کی قربانی نہیں ہوگی اور یہی حکم شرکا میں سے کسی کے کافر ہونے کا ہے
مستحبات: قربانی کا جانور خوب فربہ ہو خوبصورت ہو بڑا ہو بکری کی قسم میں سے قربانی کرنی ہو تو بہتر سینگ والا مینڈھا چدکبرا ہو جس کی جس کو خصی کر دیا گیا ہو ذبح سے پہلے چھری کو تیز کر لینا ذبح کے بعد جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے ہاتھ پاؤں نہ کاٹنا اور چمڑا نہ اتارنا قربانی کا جانور مسلمان سے ذبح کرانا اگر کسی غیر مسلم نے ذبح کرایا تو قربانی نہ ہوگی اور وہ جانور مردار ہوگا بہار شریعت صفحہ نمبر 346حصہ 15
قربانی کا گوشت: قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے کھلا سکتا ہے بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ فقراء کے لیے اور ایک حصہ دوست وہ احباب کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے اور کل کو صدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کل گھر میں رکھ لینا یہ بھی جائز ہے تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کے کھانے کے لیے رکھ لینا بھی جائز ہے اور بعض حدیثوں میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ منسوخ ہے اگر اس شخص کے اہل و عیال بہت ہوں اور صاحب وسعت نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں کے لیے رکھ چھوڑے قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے
آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسے میں دیا کرتے ہیں یہ جائز ہے اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے تو یہ بھی جائز ہے قربانی کا گوشت یا چمڑا قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا ہاں اگر دوستوں کی طرح ہدیہً حصہ دیا تو دے سکتا ہے جبکہ اسے اجرت میں نہ شمار کرے بعض جگہیں قربانی کا چمڑا مسجد کے امام کو دیتے ہیں اگر تنخواہ میں نہ دیا جائے بلکہ بطور مدد کے دیں تو حرج نہیں (قانون شریعت)
قربانی کا طریقہ: شہر میں نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی نہیں ہو سکتی اور گاؤں میں ہو سکتی ذبح میں چاروں رگیں کٹیں یا کم سے کم تین اس سے زیادہ نہ کٹیں کی چھری مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے قربانی کرنے کا طریقہ یہ ہے جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ منھ قبلہ کی طرف ہو اور ذبح کرنے والا اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کریں اس سے پہلے یہ دعا پڑھے۔
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ
دعا ختم کرتے ہی چھری چلا دے۔
َّقربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں ۔
اَلّٰلهُم تَقَبَّلْ مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِيلِكَ اِبْرِاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحَبَيْبِكْ مُحَمَّدِِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ
اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کیا ہے تو مِنِّی کی جگہ مِنْ فلاں کہے یعنی اس کا نام لے اور اگر مشترک جانور ہو جیسے گائے اونٹ بھینس تو فلاں کی جگہ سب شریکوں کے نام لے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں