رفیق ملت حضرت مولانا نجیب حیدر میاں مارہروی
رفیق ملت مارہروی کے انقلاب آفریں اقوال
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی
شاہ جہاں کے دور کے مشہور بزرگ صوفی شاعر صاحب البرکات حضرت سید شاہ برکت اللہ مشقی میکی بلگرامی ثم مارہروی قدس سرہ کی ذات سے مارہرہ مطہرہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ ہر دور میں یہاں سے منسلک بر اولیاء صلحا علما نے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ یہی وہ انقاہ ہے جہاں سے مجدد اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی در ان کے والد ماجد مولا نالقی علی خاں قادری برکاتی مرید ہو کر سلسلہ ادریہ میں ہوئے ۔ اسی خانقاہ سے بدایوں شریف جیسی علمی خانقاہ بہت کم عمری میں کو دے کے اکابر مشائخ نے بھی شرف بیعت حاصل کیا۔ اعلیٰ حضرت تاج الفحول ایونی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں بھی خانقاہ برکاتیہ کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔ اسی عظیم خانقاہ کے فرد جلیل میں حضرت سید شاہ حقانی ابن سید شاہ آل محمد علیہ الرحمۃ الرضوان کا شمار ہوتا ہے جن کا ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن " نعت رسول کی اور عنایت رسول کی اردو تراجم و تفاسیر
نے مفتی اعظم علیہ الرحمہ سے بیعت کروایا۔ سید نجیب حید ر میاں شریعت و طریقت میں یکتا علم فضل میں بے مثال، دینی وعصری علوم کے کے پیکر، نہایت مخلص اور بڑے شفیق و خلیق ہیں۔ آپ خانقاہ برکاتیہ کے جملہ معاملات و انتظامات کی عمرانی میں ماہر ہیں۔ آپ کو والد گرامی سے
خلافت و اجازت حاصل ہے۔ ان کے چچا وارث پنجتن حضرت سید یکی حسن میاں قدس سرہ نے لیا پھر اپنا وارث ، ولی عہد وسجادہ نشین اپنی حیات
ظاہری میں نامزد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سید یکمی حسن میاں علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد سید نجیب حید رمیاں کو سجادہ عالیہ نوریہ پر متمکن کیا گیا۔
سید نجیب حید ر میاں علما ، عوام ، خواص طلبہ، مریدین اور قصبہ کے افراد میں بہت مقبول ہیں وہ بھی ہر ایک سے محبت رکھتے ہیں اور بھی لوگ
ان سے بھی محبت کرتے ہیں۔ سید نجیب حید ر میاں دل دردمند کی دولت سے مالا مال ہیں وہ حتی الوسع بندگان خدا کی ہر جائز خدمت کرنے کے
میں اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔
ماضی قریب میں اس خانقاہ کی ایک مہتم بالشان شخصیت ولی کامل شیخ
لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ مہمان نوازی میں بھی اپنے بزرگوں کے نقش
مشائخ احسن العلماء حضرت علامہ سید شاہ مصطفی حیدر حسن میاں قادری کاتی قدس سرۀ گذری ہے جن کے والد گرامی سید شاہ آل عبا قادری کاتی علیہ الرحمہ ہیں جنھیں اردو کی ادبی دنیا " آوارہ مارہروی کے نام ہے جانتی ہے۔ انھیں احسن العلماء قدس سرہ کے یہاں ہمارے مدوح
قدم پر چلتے ہیں ۔ سید نجیب حیدر میاں قبلہ کو ملت اسلامیہ کی تعلیم و تربیت
کا بے پناہ درد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ایک نعرہ دیا ہے کہ آدھی روٹی کھاتے بچوں کو پڑھائیے ۔“ اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے کئی اہم تعلیمی ادارے البرکات
فیق ملت سید نجیب حید ر میاں ۱۹۶۷ء میں تولد ہوئے۔ قرآن عظیم اپنی پھوپھی سیدہ حافظہ زاہدہ خاتون سے اور کچھ حصہ
ایجو کیشنل سوسائٹی علی گڑھ کے تحت پوری دنیا میں جاری کیے گئے جہاں
ہزاروں طلبہ دینی و عصری تعلیم سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ سید نجیب حیدر میں قبلہ کو اللہ تعالی نے تقریر کا وہ جو ہر عطا کیا ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں بے تکان تقریر کرتے ہیں اور
پنے والد ماجد احسن العلماء قدس سرہ سے پڑھا ۔ اردو کی تعلیم والدہ جدہ نے دی ۔ والدہ ماجدہ رابعہ عصر سیدہ محبوب فاطمہ علیہا الرحمہ بھی جیب الطرفین سادات گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اردو کے مشہور دیب سید رئیس احمد جعفری ان کے ماموں تھے ۔ سید نجیب حیدر میاں تباہ کی تعلیم و تربیت ایسے عظیم افراد کے زیر سایہ ہوئی۔ گریجویشن کرنے کے بعد آپ خانقاہ میں ہی رہنے لگے۔ آپ کو والد ماجد احسن العلماء
تقریر کرتے ہیں تو ایک عجیب جذب کی کیفیت طاری رہتی ہے جو اپنے محیط میں سامعین کو بھی سمیٹ لیتے ہیں۔ آپ کی تقریروں میں صرف اور صرف اصلاح ہی اصلاح ہوتی ہے۔ آپ کی خطابت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اہم خطبا ایسا کہا کرتے ہیں کہ رفیق ملت سید نجیب حید ر میاں کے ایک ایک جملے پر ہم چاہیں تو ایک ایک گھنٹہ تقریر کر سکتے ہیں۔ سید نجیب حیدرمیاں کے چند اقوال یہاں پیش کیے جارہے ہیں: ہ و سنیت ہماری جڑ ہے ، سلسلے ہماری شاخیں ہیں سلسلوں کا جھگڑا ختم ہونا چاہیے، اپنے پیر سے محبت کرو، دوسرے پیر کی عزت کرو،
مقلدین کے فرقہ باطلہ سے ہے۔ یہ ایک منظم جماعت بن کر جھوٹے ولائل گڑھ کر ایمان والوں کو بالخصوص نو جوانوں کو گمراہ کرنے میں بڑی تیزی کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ ہمارے نوجوان فاضل علمائے کرام ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے آئیں اور قلم اٹھا ئیں ۔ اپنے مطالعے میں قلم ۔ اور مشاہدے کو وسعت دیں اور جم کر تحریر و تقریر کے ذریعے باطل کو شکست دیں۔ اللہ مددکرنے والا ہے۔ ۔
اپنی خانقاہ سے محبت کر وہ دوسری خانقاہ کی عزت کرو۔ ہی کسی سنی کی مخالفت مت کرو ، کام کرویس کام کرو۔ جو کام
کر رہے ہیں اُن کا ساتھ دو۔
د یہ بڑا المیہ ہے کہ ہم سواد اعظم ہو کر بھی فکری اور نظریاتی طور پر کہیں کہیں بہت جدا نظر آتے ہیں۔ مسلک ایک ، مشرب ایک عقیدہ ایک مرکز عقیدت ایک لیکن پھر بھی اتنی دوریاں انفس کا ایسا غلبہ کہ لمحہ بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ۔ پچھلے سالوں سے جو تحریری اور تقریری جنگیں ہماری صفوں میں جاری ہیں اس جماعت کے فروغ کے لیے کہیں سے صحت مند علامتیں نہیں ۔ افسوس کہ ان تمام اختلافات کی وجوہات بھی ایسی ہیں جو ہمیشہ مذہب میں صحت مند تصور کی گئی ہیں اور وہ بھی فقہی اور فروعی معاملات و اختلافات جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ تحقیقات جاری رہیں گی
انیہ مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تمام سنی تنظیموں کے ساتھ کا ندھے سے کاندھا ملا کر کام کریں۔
کسی سنی کی مخالفت نہ کرو، برکاتیت کے مشن کو فروغ دو، ہرنی ایک ہمارا ہے۔ مذہب و مسلک کے معاملات میں کوئی سمجھوتہ نہ کل یہاں ہوا چند تھا نہ مستقبل میں ہوگا، ہم اپنی چادر اور پاؤں دونوں نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ
اتنا ہی کام اور ذمہ داری لیتے ہیں جس کو نبھا سکیں۔
جماعت کی شیرازہ بندی ہر فرد پر واجب ہے۔ یہ احساس قوم کے ہر فرد کے اندر کیسے پیدا ہو؟ یہ ذمہ داری قیادت کی ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس پر آشوب دور میں طمت اور بالخصوص جماعت کے شیرازے کو بکھر نے نہ دیں ۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم کچھ سبق
تو نئی چیزیں ضرور نکل کر آئیں گی۔
ہی شرعی مسائل میں صحت مند اختلافات مذہب اور مسلک کو تشفی
اپنے روشن ماضی سے حاصل کریں۔ ہماری کوشش رہتی ہے کہ ہم اپنے چاہنے والوں سے غلط نہیں اور دوریوں کو کم کریں۔ مارہرہ والوں کو اقتدار سے ہمیشہ بیزاری رہی ہے اور آج بھی ہمیں قیادت و سیادت کا شوق نہیں ۔ اگر کسی کو ہم اچھے لگیں اور ہمارے کام پسند آتے ہیں تو ہمارے قریب آئے۔ کسی بھی قسم کی خرید و فروخت سے ہمارا تعلق نہیں ۔ ہم کو کسی سیاست حاضرہ میں دلچسپی نہیں ۔ مریدوں کی تعداد بڑھانے کا شوق نہیں، اگر کسی میں کوئی کمی ہے تو ہمارا مانتا ہے کہ اسے قریب کرد، اصلاح کرو، نہ کہ اسے تن سے الگ کرو۔ اس سے جماعت کو ماضی میں بھی بڑے خسارے کا سامنا کرنا
پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ اس کے ماننے والوں کے دلوں میں دوریاں بڑھانے کے لیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ائمہ مجتہدین اور اکابر فقہائے اسلام میں بہت سے مسائل پر اختلاف تھے یہاں تک کہ استاد شاگر د بھی ایک ہی مسئلے پر الگ الگ موقف رکھا کرتے تھے لیکن کہیں بھی ایسی نظیر نہیں ملتی کہ خدا نخواستہ ہمارے اکابر نے ایک دوسرے کی اہانت کی ہو یا شرعی حکم کی نوبت آئی ہو۔ حضرات مشائخ مارہرہ سے حضرت تاج المحمول اور اعلیٰ حضرت قدس سرہما کی عقیدت مندانہ اور نیاز مندانہ وابستگی سے بھی واقف ہیں ۔ ان حضرات کا موقف لعن یزید اور ایمان ابو طالب کے حوالے سے جدا تھا۔ تو کیا معاذ اللہ یہ حضرات اپنے پیر خانے کے مشائخ کے باغی تھے؟ یا انھوں نے اس بات کو ببانگ دہل ظاہر کرتے ہوئے مشائخ کرام پر انگشت نمائی کی؟ کبھی نہیں ہر گز نہیں۔
پڑا ہے اور مستقبل میں بھی شیرازہ بکھرنے کا اندیشہ ہے۔ ی ہمارا تو بس ایک ہی خواب ہے کہ جیسے ماضی میں سب سر جوڑ کر اور دل جوڑ کر دین کی خدمت میں کمر بستہ تھے۔ آؤ پھر ایک ہو جائیں،
ایسے ہی میرے مرشد حضرت مفتی اعظم کا موقف مسلم لیگ کے حوالے سے مجدد برکاتیت اور ان کے اخلاف کے موافق نہ تھا، تو کیا حضرت مفتی اعظم ان کے چہیتے اور وہ مفتی اعظم کے مرکز عقیدت نہ
خانقا ہیں اور ان کے ذمہ داران ایک ہو کر سواد اعظم اہل سنت کے دفاع کے لیے آگے آئیں ۔ آج جماعت اہل سنت کو سب سے بڑا خطرہ غیر رہے؟ علماے بدایوں کا بہت سے فروعی مسائل میں موقف اپنے پیر زادوں سے جداگانہ تھالیکن کبھی ایسا نہ ہو کہ صاحبزادگان کی کوئی دل مکنی اس جانب سے ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ نیاز مندی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ا ہم پر اکابر کی پیروی لازم ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ایک دفعہ پھر جماعت سازی کا کام کریں ۔ احمد لله تمام خانقا ہیں اور پیران عظام اپنا ایک وسیع حلقہ ارادت رکھتے ہیں۔ کسی کو کسی سے کوئی د نیادی حاجت در کار نہیں پھر کون سی چیز ہے جو اضطراب کا باعث ہے۔
ان تمام چیزوں کی ذمہ داری ہمارے قائدین سے زیادہ ہمارے عوام کی ہے۔ ہم نے اپنا اچھا برا سوچنے کی ساری ذمہ داری دوسروں کو سونپ رکھی ہے۔ سیاسی لوگ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ہمارا اور ہمارے ووٹ کا استعمال کر لیتے ہیں اور اپنا ذاتی مفاد بحال کر کے ہمیں کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں اور ہم ان سب کا الزام قوم کی قسمت پر رکھ دیتے ہیں اور پھر اگلی بار اس سانحے سے دو چار ہونے کی تیاری
شروع کر دیتے ہیں۔
آج پوری ملت اسلامیہ اور جماعت اہل سنت جن مسائل سے دو
خانقاہ برکاتیہ کی اپیل ہے علماء مشائخ اور بالخصوص ائمہ مساجد
چار ہے وہ کوئی مخفی سا نہیں ۔ ہم سب اپنے اپنے حلقہ ارادت کے افراد سے بھی کی ذہن سازی کریں، ان میں مثبت سوچ پیدا کریں، ان کو دوسرے جا کر مشائخ اور علم کی تو قیر اور تعظیم کی رغبت دلائیں ۔ اس سے مشائخ بھی ایک دوسرے کے قریب ہوں گے اور متوسلین بھی اور اس کا مثبت اثر یہ ہوں ہوگا کہ سواد اعظم متحد ہوگا ۔ ہماری آواز مضبوط ہوگی ، حکومت کے حصے ایوانوں میں ہمارا وزن بڑھے گا اور جب جب بھی ملت کے مسائل پر
کہ اس طرف سنجیدگی سے سوچیں، قوم کے خطیب لوگوں کے درمیان انہیں بیدار کریں کہ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے ۔ خدارا خود کی اہمیت کو پہچان کر فیصلے لیں اور ایسے فیصلے لیں جو نہ صرف حال میں مفید بلکہ مستقبل میں آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہوں ۔ ہمیں اپنی داری کے لئے جائز مطالبات کرنے کے لئے کسی سے دینے اور " ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ ملک کے فلاح و بقا میں ہمارا کردار مثبت رہا ہے۔ لہذا ملک کی ہر چیز پر ہمارا حق بھی برابر ہے۔ حکومت
کوئی بات کی جائے گی تو ہماری حصہ داری اور ہمارے موقف کو کلیدی ہمیشہ
اور سیاست میں ہمیں اپنی حصہ داری کو طے کرنا لازمی ہے۔
حیثیت حاصل ہوگی۔
خانقاہ برکاتیہ تمام علمائے کرام اور مشائخ عظام سے یہ اپیل کرتی ہے کہ ہم سب ایک ایسا موقع نکالیں کہ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور جو بھی فروعی ہلکے پھلکے اختلافات یا نظریاتی الجھنیں ہیں ان کو رفع کریں۔ ہم اس کام میں پہل کرنے کو کل بھی تیار تھے اور آج بھی۔
اہل سنت و جماعت کے مسائل و امکانات ہی آج کے دور میں
حساس ذہنوں کے لیے ایک اہم موضوع ہیں ۔ اول الذکر کی تعداد تو بہت ہے اور مؤخر الذکر کے بروے کار ہونے کی امیدیں بہت کم اور ان سے آگاہی ہوتے ہوئے بھی ہماری توجہ اس سے بھی کم ہے لیکن
اللہ تعالی اپنے حبیب کے طفیل ہم سب کو اس بحران سے خود کو نکالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہی ہوگا۔ اخلاق لفظ دیکھنے میں بہت چھونا ہے ، لیکن اس کا الف انکساری کا ہے، خ خاطر داری کی ہے، لام لاچاروں کی مدد کی ہے،
آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمان ملک کی سیاست میں ہمیشہ مرکزی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ
دوسرا الف انسانیت کا ہے اوراق قناعت کی ہے ۔ انکساری ہو، خاطر داری ہو ، لا چاروں کی مدد ہو، انسانیت ہوا اور قناعت ہو تو ہمارے اندر
موجودہ دور میں مسلمانان ہند کو سیاست اور سیاسی معا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں