لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
شاد ہر نا کام ہو ہی جائے گا
جان دے دو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا
شاد ہے فردوس یعنی ایک دن
قسمتِ خُدّام ہو ہی جائے گا
یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں
نفس تُو تو رام ہو ہی جائے گا
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
یاد گیسو ذکرِ حق ہے آپ کر
دل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا
ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز
چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا
سائلو! دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا
یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو!
ٹکڑے ٹکڑے دام ہو ہی جائے گا
مفلسو! اُن کی گلی میں جا پڑو
باغ خلد اِکرام ہو ہی جائے گا
گر یونہی رحمت کی تاویلیں رہیں
مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا
بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو
شیخ درد آشام ہو ہی جائے گا
غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں
جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا
مٹ! کہ کر یونہی رہا قرض حیات
جان کا نیلام ہو ہی جائے گا
عاقلو! ان کی نظر سیدھی رہے
بَوروں کا بھی کام ہو ہی جائے گا
اب تو لائ ہے شفاعت عَفْو پر
بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا
اے رضا ہر کام کا اک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں