سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

 سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

سونے والے! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے


یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا

ہائے مسافر دم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے


سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا زہر ہے اٹھ پیارے

تو کہتا نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے


بادل گرجے بجلی تڑپے دھک سے کلیجا ہو جائے

بن میں گھٹا کی بھیانک صورت کیسی کالی کالی ہے


دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حَرّافہ

صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے


شہد دکھائے زہر پلائے,قاتل, ڈائن,شوہر کش

اس مراد پہ کیا للچایا دنیا دیکھی بھالی ہے


وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا 

ہم مفلس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے


مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے

ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اقبالی ہے


طالب دعا محمد انعام خان قادری

تبصرے