گزرے جس راہ سے وہ سید والا ہو کر
گزرے جس راہ سے وہ سید والا ہو کر
رہ گئ ساری زمیں عنبر سارا ہوکر
رخ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہو کر
وائے محرومیِ قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرہِ زَوّارِ مدینہ ہو کر
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغ سِدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
صَرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشکِ گلشنِ جو بنا غنچۂ دل وا ہو کر
گوشِ شہ کہتے ہیں فریا رسی کو ہم ہیں
وعدۂ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہو کر
پائے شہ پر گرے یا رب تپشِ مہر سے جب
دل بے تاب اُڑے حشر میں پارا ہوکر
ہے یہ امید رضا کو تِری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیِ دوزخ تِرا بندہ ہو کر
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں