اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے ان کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بو سے اس کی پیدا ہے سوزش عشق چشم والا
کباب آہو میں بھی نہ پایہ مزہ جو دل کے کباب میں ہے
اُنہیں کی مایۂ سمن ہے اُنہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
اُنہیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنہیں کی رنگت گلاب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور!
بتا دو آ کر مرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما
تُو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں