پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو
کانٹا مرے جگر سے غمِ روزگار کا
یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو
فریاد امتی جو کرے حال زار میں
ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں
اے مرتضیٰ عتیق و عمر کو خبر نہ ہو
ایسا گما دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
ان کے سوا رضا کوئی حامی نہیں جہاں
گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں