نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

 نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے 

اٹھا لے جائے تھوڑی خاک ان کے آستانے سے


تمہارے در کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے 


شب اسرا کے دولھا پر نچھاور ہونے والی تھی 

نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے کی


بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روئے عاشق پر

کِھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے کی


زمیں تھوڑی سی دیدے بہر مدفن اپنے کوچہ میں 

لگا دے میرے میری مٹی بھی ٹھکانے سے


پلٹتا ہے جو زائر اس سے کہتا ہے نصیب اس کا

ارے غافل قضا بہتر یاں سے پھر کے جانے کی


نہ پہنچے ان کے قدموں تک نہ کچھ حسن عمل ہی ہے

حسن کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانہ سے


طالب دعا محمد انعام خان قادری

تبصرے