نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا

 نعنتیں بانٹتا جس سَمت وہ ذیشان گیا 

ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلم دان گیا


لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا

میرے مولٰی مِرے آقا تِرے قربان گیا


آہ وہ آنکھ کہ ناکام تمنا ہی رہی

ہائے وہ دل جو ترے دل سے پُر ارمان گیا


دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا 

سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا 


انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام 

لِلّٰہِ الحَمد میں دنیا سے مسلمان گیا 


اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی 

نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی اِحسان گیا 


آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے

پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا


اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصُّب آخر

بھیڑ میں ہاتھ سے کمبخت کے ایمان گیا 


جان و دل ہوش و خِرد سب تو مدینے پہنچے 

تم نہیں چلتے رضا سارا رو سامان گیا


طالب دعا محمد انعام خان قادری

تبصرے