پھرتے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھئے کیوں

 پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھئے کیوں

دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں


رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوں 

سوتے ہیں ان کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں


بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو 

روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں


یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستم

خوب ہیں قید غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں 


دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی 

چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آ نہ جائے کیوں


جان ہے عشقِ مصطفےٰ روز فزوں کرے خدا 

جس کو ہو درد کا مزا ناز دوا اُٹھائے کیوں 


جانِ نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو

کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں 


اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی 

میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں


سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے 

جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں 


ہے تو رضا نرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم 

کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں 


طالب دعا محمد انعام خان قادری

تبصرے