اردو زبان پر اشعار
خوب صورت لفظ جو آئے عرب ایران سے
اُن کو ہندوستان نے اپنالیا جی جان سے
اہل دانش کی رہی جب تک نظر ان لفظ پر
اپنی اپنی ہی جگہ قائم رہے زیر و زبر
جب ادھورے علم کا اردو پہ قبضہ ہو گیا
مَدْرَسَہْ جس کا تلفظ تھا مدَرسہ ہو گیا
توتلے ہکلے چلا لیتے جیسے اپنا کام
مطمئن ہیں ناسمجھ اِنعَام کو کہ کر اِنام
جہل کی دریا میں اہل علم و فن بہنے لگے
انتہا تو یہ ہے لوگ سَر کو سِر کہنے لگے
جب زباں سے اَن پڑھوں کی آشنائ ہو گئ
جس کو کہتے تھے دوا وہ بھی دوائ ہو گئ
کوئ جب اَسرار سے اِسرار احمد ہو گیا
اور تھا مقصد مگر کچھ اور مقصد ہو گیا
ایسے ویسوں نےتو رِفعَت کو بھی رَفَت کر دیا
نام رکھا تھا مَسَرّت اور مُسَرّت کر دیا
شمع کو نا تجربہ کاروں کر ڈالا شما
نَفع کو بازار والوں نے بنا ڈالا نفا
اچھے خاصے لفظ کا اک حرف آدھا کر دیا
جو زِیادہ تھا اسے ہم وزن زَادہ کر دیا
لگ رہا ہے اب زبر سے زیر پر سارا دماغ
جن کو ہونا تھا چَرَاغ اب ہو گئے ہیں وہ چِرَاغ
ہو رہا ہے اب ختم اردو زباں کا بانکپن
وَزن کو اب تو پڑے لکھے بھی کہتے ہیں وَزَن
لوگ ظاہر کرہے ہیں نا مکمل علم و فن
شَہِر کو کہ کر شَہَر اور اَمْنْ کو کہ کر اَمَنْ
کم پڑے لکھو نے سب کچھ الٹا سُلٹا کر دیا
تَجْرِبَہ پڑھنا نہیں آیا تَجُرْبَہ کر دیا
کیا کہا جائے وہاں کیا تھا یہاں کیا ہو گیا
مُدُّعا آیا عرب سے اور مُدّا ہو گیا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی جہالت کی مثال
جس کو کہتے تھے وبال اب ہو گیا ہے وہ بوال
ایسے ایسے لوگ بھی ہیں با ہنر اور با کمال
راہ میں مَشْعَل جلاتے ہیں اور کہتے ہیں مَشَال
مطمئن ہیں اچھے اچھے خَتْم کو کہ کر خَتَم
نَرْم کو کہ کر نَرَمْ اور گَرم کو کہ کر گَرَم
ہے وَقار اور لوگ کہتے ہیں جو اس کو وِقار
ایسے لوگوں سے بھی اردو ہو رہی ہے شرمسار
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں