تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
اُفق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مرغ سب بولتے ہیں بول کر چپ رہتے ہیں
ہاں اصیل ایک نوا سنج رہے گا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اک تو ہے کہ پروانہ ہے کعبہ تیرا
تو ہے نوشاہ براتی ہے یہ سارا گلزار
لائ ہے فَصْلِ سَمَن گوندھ کے سہرا تیرا
صف ہر شجر میں ہوتی ہے سلامی تیری
شاخیں جُھک جُھک کے بجالاتی ہیں مُجرا تیرا
کس گلستاں کو نہیں فصل بہاری سے نیاز
کون سے سلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا
مزرعِ چِشت و بخارا و عِراق و اجمیر
کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اور محبوب ہیں ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے والا تیرا
سُکر کے جوش میں جو ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خضر کے ہوش سے پوچھے کوئ رُتبہ تیرا
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قِیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
دل اَعدا کو رضا تیز نمک کی دھن ہے
اِک ذرا اور چھڑکتا رہے خامہ تیرا
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں