وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفَر مقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جا یہاں نہیں تو وہاں نہیں
تِرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں, نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تختِ نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
سرِ عرش پر ہے تری گزر دلِ فرش پر ہے تری نظر
مَلکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی پھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں
ترا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سروِ چماں نہیں
کروں مدح اہل دُوَل رضا پڑے اس بلا میں مری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارۂ ناں نہیں
طالب دعا محمد انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں