وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

 وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں 

تیرے دل سے بہار پھرتے ہیں 


جو ترے دل سے یار پھرتے ہیں 

در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں 


آہ کل عیش تو کئے ہم نے 

آج وہ بے قرار پھرتے ہیں 


اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں 

مانگتے تاج دار پھرتے ہیں 


جان ہیں جان کیا نظر آئے 

کیوں عدو گرد غار پھرتے ہیں 


پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں 

دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں 


لاکھوں قدسی ہیں کام خدمت پر 

لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں 


ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں 

پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں 


کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا 

تجھ سے کُتّے ہزار پھرتے ہیں 


طالب دعا محمد انعام خان قادری

تبصرے