ہم ہو گئے بے شمار آقا

 ہم ہو گئے بے شمار آقا 

بندہ تیرے نثار آقا


بگڑا جاتا ہے کھیل میرا

آقا آقا سنوار آقا


مَنجدھار پہ آ کے ناؤ ٹوٹی 

دے ہاتھ کہ ہوں میں پار آقا 


ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری

لِلّه یہ بوجھ اُتار آقا 


ہلکا ہے اگر ہمارا پَلّہ

بھاری ہے تِرا وقار آقا


مجبور ہیں ہم تو فکر کیا ہے

تم کو تو ہے اختیار آقا


میں دور ہوں تم تو ہو مِرے پاس 

سن لو میری پکار آقا


مجھ سا کوئ غمزَدہ نہ ہوگا

تم سا نہیں غم گسار آقا


گرداب میں پڑ گئ ہے کَشتی

ڈوبا ڈوبا اتار آقا 


تم وہ کہ کرم ناز تم سے

میں وہ کہ بدی کو غار آقا


پھر منھ نہ پڑے کبھی خزاں کا

دے دے ایسی بہار آقا


جس کی مرضی خدا نہ ٹالے

میرا ہے نامدار آقا 


ہے ملک خدا پہ جس کا قبضہ 

میرا ہے وہ کامگار آقا 


سویا کیے نابکار بندے

رویا کیے زار زار آقا


کیا بھول ہے ان کے ہوتے کہلائیں

دنیا کے یہ تاجدار آقا 


اُن کے ادنا گدا پہ مٹ جائیں 

ایسے ایسے ہزار آقا


بے ابرِ کرم کے میرے دھبّے

لاَ تَغْسِلُھَا الْبِحَار آقا 


اتنی رحمت رضا پہ کر لو 

لَا يَقْرُبُهُ الْبَوَار آقا


طالب دعا محمد انعام خان قادری

تبصرے