واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

 وصل دوم در منقبت آقائے اکرم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ


واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اُونچے اُونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ  تیرا


سر بھلا کیا کوئ جانے کہ ہے کیسا تیرا 

اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا


کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا

شیر کو خطر میں لاتا نہیں کُتّا تیرا


قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے 

پیارا اللہ تِرا چاہنے والا تیرا 


عرض احوال کی پیاسوں میں کہاں تاب مگر 

آنکھیں اے ابرِ کرم تکتی ہیں رستا تیرا


جان تو جاتے ہی جائے گی قیامت یہ ہے

کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظارہ تیرا


تجھ کو در در سے سگ اور سگ سے ہے مجھکو نسبت 

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا


اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے 

حشر تک میرے گلے میں رہے پتّا تیرا


میری قسمت کی قسم کھائیں سگان بغداد 

ہِند میں بھی ہوں دیتا رہوں پہرا تیرا


بد سہی,  چور سہی,  مجرم و ناکارہ سہی 

اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا 


مجھ کو رُسوا بھی اگر کوئ کہے گا تو یوں ہی

کہ وہی نا,  وہ رضا بندۂ رسوا تیرا 


ہیں رضا یوں نہ بلک تو نہیں جَیِّد تو نہ ہو 

سَیِّد جَیِّد ہر دَہر ہے مولیٰ تیرا


فخر آقا میں رضا اور بھی اِک نظم رفیع 

چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرا تیرا 


طالب دعا محمد انعام خان قادری 



تبصرے