خراب حال گیا دل کو پر ملال کیا
خراب حال کیا دل کو پر ملال کیا
تمہارے کوچہ سے رخصت کیا نِہال کیا
نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھی
قضا نے لا کے قَفَس میں شکستہ بال کیا
وہ دل کی شدہ ارماں تھے جس میں مل ڈالا
فُغاں کہ گور شہیداں کو پائمال کیا
یہ رائے کیا تھی وہاں سے پلٹنے کی اے نفس
ستم گر الٹی چھری سے مجھے حلال کیا
یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھ کو اے ظالم
چھڑا کے سنگِ درِ پاک سر وبال کیا
چمن سے پھینک دیا آشیانئہ بلبل
اُجاڑا خانئہ بے کس بڑا کمال کیا
تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بگاڑا تھا
یہ کیا سمائ کہ دور ان سے وہ جمال کیا
حضور ان کے خیالِ وطن مٹانا تھا
ہم آپ مٹ گئے اچھا فراغ بال کیا
نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے ناکامی
ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
جو دل نے مر کر جلایا تھا مَنَّتوں کا چَراغ
ستم کی غرض رہ صرصرِ زوال کیا
مدینہ چھوڑ کے ویرانہ ہند کا چھایا
یہ کیسا ہائے حواسوں نے اِختلال کیا
تو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سے محبوب
بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا
ابھی ابھی تو چمن میں تھے چہچہے ناگاہ
یہ درد کیسا اٹھا جس نے جی نڈھال کیا
اِلٰہی سن لے رضا جیتے جی کہ مولٰی نے
سگانِ کوچہ میں چہرہ مِرا بحال کیا
طالب دعا انعام خان قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں